Wednesday, 4 March 2015

گوگل کے نئے آپریٹنگ سسٹم کا نام کٹ کیٹ Kit Kat is new name of Google Operating System

گوگل کے نئے آپریٹنگ سسٹم کا نام کٹ کیٹ



ہمیں اس حوالے سے فیصلہ کرنے میں صرف ایک گھنٹہ لگا:نیسلے

انٹرنیٹ کمپنی گوگل نے اعلان کیا ہے کہ اس کے موبائل آپریٹنگ سسٹم اینڈرائڈ کا نیا ورژن نیسلے کی مشہور چاکلیٹ كٹ کیٹ کے نام پر ہوگا۔
یہ نام چونکا دینے والا ہے کیونکہ گوگل نے اشارہ دیا تھا کہ اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم ورژن 4.4 کا نام ’کی لائم پائی‘ ہو سکتا ہے۔
گوگل نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی فریق ایک دوسرے کو پیسہ نہیں دے رہا ہے۔
اینڈرائڈ گلوبل پارٹنر شپ کے ڈائریکٹر جان لیگر لنگ نے بی بی سی کو بتایا ’اس ڈیل کا سودے بازی یا پیسے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘۔
ان کے مطابق ’یہ صرف کچھ عجیب اور غیر متوقع کرنے کی نیت سے اٹھایا گیا ایک قدم ہے‘۔
کنسلٹنسی فرم ’پرافٹ‘ کے سائمن مائرز کا کہنا ہے ’اگر آپ کا برانڈ کسی دوسرے برانڈ کے ساتھ جڑ جاتا ہے تو یہ آپ کے اچھے کے ساتھ اس کی بری چیزوں کے ساتھ بھی جوڑ دیتا ہے‘۔
سائمن مائرز کہتے ہیں ’جس برانڈ کے ساتھ آپ نے اپنا برانڈ شامل کیا اگر اس کے ساتھ کچھ کم ہوتا ہے تو ایسا نہیں سوچا جا سکتا کہ اس کا اثر آپ کے برانڈ پر نہیں پڑے گا‘۔
اس سے پہلے نیسلے پر ترقی پذیر ممالک میں بچوں کے دودھ کا پاؤڈر فروخت کرنے کے حوالے سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔




نیسلے کو امریکہ میں کتوں کے کھانے میں بیماری پھیلنے کے خدشے کے باعت اپنی متعدد مصنوعات کو واپس لینا پڑا تھا۔
گوگل کے طور طریقے بھی تنقید سے آزاد نہیں ہیں۔ حال ہی میں امریکی حکومت کی ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ اینڈرائڈ فون پر حملہ کرنے والے سافٹ ویئر کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
گوگل کے اس نئے ورژن کو شروع میں ’كے ایل پی‘ کے نام سے پکارا جا رہا تھا.
اینڈرائڈ گلوبل پارٹنر شپ کے جان لیگر لنگ نے کہا کہ گزشتہ سال ان کی کمپنی نے اپنے نئے ورژن کا نام اس مشہور چاکلیٹ پر رکھنے کا فیصلہ کیا.
جان لیگر لنگ نے کہا ’ہمیں محسوس ہوا کہ کتنے لوگوں نے دنیا میں کی لائم پائی کھایا ہوگا، جہاں ہماری کوڈنگ ہوتی ہے وہاں فرج میں کھانے کی چیزوں میں كٹ کیٹ چاکلیٹ بھی ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کہا ’ایک رات کوئی اچانک بولا کہ اس نئے ورژن کا نام كٹ کیٹ کیوں نہ رکھ دیں، اس وقت تک تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ كٹ کیٹ کا نام دراصل کس کمپنی کے پاس ہے پھر ہم نے سوچا چلو نیسلے سے بات کی جائے۔‘
نیسلے کی مارکیٹنگ چیف پیٹرائیس نے بی بی سی کو بتایا ’ہمیں اس حوالے سے فیصلہ کرنے میں صرف ایک گھنٹہ لگا‘۔
انھوں نے کہا ’جب آپ اپنے برانڈ کے بارے میں بات کرنے کا کوئی نیا ذریعہ تلاش کرتے ہیں تو اس میں معمول سے زیادہ خطرات ہوتے ہیں اور یہ ویسا ہی ہے کہ آپ سوئمنگ پول کے قریب یہ سوچتے سوچتے 10 چکر لگاتے کہ پانی گرم ہوگا یا ٹھنڈا لیکن سچ جانے کے لیے آپ کو پانی میں اترنا پڑتا ہے‘۔
اس مہم کے تحت نیسلے اینڈرائڈ کی شکل لیے پانچ کروڑ كٹ کیٹ بار کو بھارت، روس، امریکہ، برطانیہ سمیت 19 ممالک میں متعارف کروائے گا۔

Battery can be used for monitoring ’بیٹری کے استعمال کے جائزے سے فون کی نگرانی ممکن‘

’بیٹری کے استعمال کے جائزے سے فون کی نگرانی ممکن‘

ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اینڈروئڈ فون کی نگرانی اس کے جی پی ایس یا وائی فائی ڈیٹا کی جگہ بغیر صرف اس کے بیٹری کے استعمال کے جائزے سے کی جا سکتی ہے۔
اس نظام پر چلنے والے سمارٹ فون اپنے نیٹ ورک یا ’سیلیولر بیس‘ سے جتنی دوری پر ہوتا ہے یا اسے فون کے سگنل وصول کرنے میں جتنی دشواری ہوتی ہے وہ اتنی ہی زیادہ بیٹری استعمال کرتا ہے۔
سمارٹ فون کی نگرانی سے متعلق تحقیق کے دوران محققین نے ایک ایسی ایپ بنائی جس سے فون کے بیٹری کے استعمال کے بارے میں ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا تھا۔
امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے سائنسدانوں نے یہ ریسرچ کی اور اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا ہے اس ایپ کو نہ تو جی پی ایس اور نہ ہی وائی فائی یا انٹرنیٹ نیٹ ورک تک رسائی حاصل تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس ایپ کو صرف نیٹ ورک کنکشن اور پاور ڈیٹا تک رسائی تھی۔‘
سائنسدانوں کا مزید کہنا تھا ’ کسی بھی ایپ کے لیے اس طرح کی اجازت حاصل کرنا عام بات ہے اور اس سے کسی بھی نیٹ ورک یا صارف کو یہ شک ہونا تقریباً ناممکن ہے ان کے فون کو ٹریک کیا جا رہا ہے۔‘
محققین کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں ایک سمارٹ فون کے گوگل پلے سٹور میں تقریباً 189 ایپس ہوتے ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں ایک سمارٹ فون کے گوگل پلے سٹور میں تقریباً 189 ایپس ہوتے ہیں۔

فون پر موسیقی سننا، نقشے کھولنا، وائس کال کرنا یہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہونا بھی بیٹری کے اخراجات میں اضافہ کرتا ہے لیکن اس کو اس لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ یہ فون کو سیکھنے اور سمجھنے کے زمرے میں آتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فون پر جاری یہ ساری سرگرمیاں ہماری تحقیق کو اس لیے متاثر نہیں کرتی ہیں کیونکہ ان سرگرمیوں کا فون کی لوکیشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
برطانیہ کی سرے یونیورسٹی میں سائبر یا انٹرنیٹ کی سکیورٹی کے امور کے ماہر پروفیسر ایلن وڈورڈ کا کہنا ہے ’آج کے دور میں موبائل ایپس یا ڈیوائسز اتنی عام ہوگئی ہیں اور ایسے میں یہ بات تشویشناک ہے کہ فون کی نگرانی کرنے کے کتنے راستے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’حالیہ تحقیق سے یہ بات واضح ہے کہ فون کی بیٹری یا فون میں استعمال ہونے والی توانائی ہماری نجی زندگی میں دخل اندازی کی طاقت رکھتی ہے۔‘
انھوں نے کہا ’ہم ایک ایسے مرحلے کی جانب جا رہے ہیں جہاں فون کرنے کا سب سے محفوظ طریقہ کار یہ ہے کہ ہم اپنے فون کی بیٹری نکال پھینکیں لیکن سارے فون اس بات کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔‘

فون اب کرسیوں، میزوں سے چارج کریں Now Chair & Desk can charge the cell phone

فون اب کرسیوں، میزوں سے چارج کریں


آئیکیا نے معیاری وائرلیس چارجنگ ’کیو آئی‘ کا استعمال کیا ہے جو کہ سیمسنگ کے نئے فون ’ایس 6‘ کے ساتھ بھی چلتا ہے

فرنیچر بنانے والی سوئٹزر لینڈ کی مشہور کمپنی ’آئیکیا‘ نے فرنیچر کے نئے ڈیزائن متعارف کرائے ہیں جن میں موبائل فون وغیرہ چارج کرنے کی سہولت موجود ہے۔
فرنیچر کی اس ’ہوم سمارٹ رینج‘ میں ابتدائی طور پر لیمپ، بیڈسائڈ ٹیبل اور کافی ٹیبل جبکہ کسی بھی سطح پر رکھ کر استعمال کے لیے انفرادی چارجنگ پیڈ بھی شامل ہیں۔
آئیکیا نے اس مقصد کے لیے معیاری وائرلیس چارجنگ ’کیو آئی‘ کا استعمال کیا ہے جو کہ سیمسنگ کے نئے فون ’ایس 6‘ کے ساتھ بھی چلتا ہے۔
آئیکیا آئی فون اور سیمسنگ کے ان فون ماڈلز کے لیے بھی چارجنگ کوّرز فروخت کرے گی جو ’کیو آئی‘ سے ہم آہنگ نہیں۔
فی الحال 80 سے زائد ایسے فون ہیں جو ’کیو آئی‘ سے ہم آہنگ ہیں۔
موبائل فونز کے چارجر بنانے والے گروپ ’وائرلیس پاور کنسوشیم‘ کے مطابق مارکٹ میں ’کیو آئی‘ سے ہم آہنگ 15 گاڑیاں بھی موجود ہیں۔

آئیکیا کا کہنا ہے کہ ’گھر اور آفس کے فرنیچر میں وائرلیس چارجنگ کی شمولیت سے ہم نے انفرادی چارجرز کی ضرورت کو محدود کر دیا ہے‘

آئیکیا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی وائرلیس چارجنگ مصنوعات اپنی مدت پوری ہونے پر آسانی سے تلف کی جا سکتی ہیں۔
آئیکیا کا کہنا ہے کہ ’گھر اور آفس کے فرنیچر میں وائرلیس چارجنگ کی شمولیت سے ہم نے انفرادی چارجرز کی ضرورت کو محدود کر دیا ہے‘۔
تاہم ماحولیات پر کام کرنے والے گروپ ’فرینڈز آف دی ارتھ‘ نے اس طرح کی مصنوعات کی ریسائکلنگ یا باز گردانی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔
آئیکیا کی یہ مصنوعات برطانیہ اور امریکہ میں اپریل 2015 سے فروخت کے لیے پیش کی جائیں گی۔