Wednesday, 4 March 2015

گوگل کے نئے آپریٹنگ سسٹم کا نام کٹ کیٹ Kit Kat is new name of Google Operating System

گوگل کے نئے آپریٹنگ سسٹم کا نام کٹ کیٹ



ہمیں اس حوالے سے فیصلہ کرنے میں صرف ایک گھنٹہ لگا:نیسلے

انٹرنیٹ کمپنی گوگل نے اعلان کیا ہے کہ اس کے موبائل آپریٹنگ سسٹم اینڈرائڈ کا نیا ورژن نیسلے کی مشہور چاکلیٹ كٹ کیٹ کے نام پر ہوگا۔
یہ نام چونکا دینے والا ہے کیونکہ گوگل نے اشارہ دیا تھا کہ اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم ورژن 4.4 کا نام ’کی لائم پائی‘ ہو سکتا ہے۔
گوگل نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی فریق ایک دوسرے کو پیسہ نہیں دے رہا ہے۔
اینڈرائڈ گلوبل پارٹنر شپ کے ڈائریکٹر جان لیگر لنگ نے بی بی سی کو بتایا ’اس ڈیل کا سودے بازی یا پیسے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘۔
ان کے مطابق ’یہ صرف کچھ عجیب اور غیر متوقع کرنے کی نیت سے اٹھایا گیا ایک قدم ہے‘۔
کنسلٹنسی فرم ’پرافٹ‘ کے سائمن مائرز کا کہنا ہے ’اگر آپ کا برانڈ کسی دوسرے برانڈ کے ساتھ جڑ جاتا ہے تو یہ آپ کے اچھے کے ساتھ اس کی بری چیزوں کے ساتھ بھی جوڑ دیتا ہے‘۔
سائمن مائرز کہتے ہیں ’جس برانڈ کے ساتھ آپ نے اپنا برانڈ شامل کیا اگر اس کے ساتھ کچھ کم ہوتا ہے تو ایسا نہیں سوچا جا سکتا کہ اس کا اثر آپ کے برانڈ پر نہیں پڑے گا‘۔
اس سے پہلے نیسلے پر ترقی پذیر ممالک میں بچوں کے دودھ کا پاؤڈر فروخت کرنے کے حوالے سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔




نیسلے کو امریکہ میں کتوں کے کھانے میں بیماری پھیلنے کے خدشے کے باعت اپنی متعدد مصنوعات کو واپس لینا پڑا تھا۔
گوگل کے طور طریقے بھی تنقید سے آزاد نہیں ہیں۔ حال ہی میں امریکی حکومت کی ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ اینڈرائڈ فون پر حملہ کرنے والے سافٹ ویئر کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
گوگل کے اس نئے ورژن کو شروع میں ’كے ایل پی‘ کے نام سے پکارا جا رہا تھا.
اینڈرائڈ گلوبل پارٹنر شپ کے جان لیگر لنگ نے کہا کہ گزشتہ سال ان کی کمپنی نے اپنے نئے ورژن کا نام اس مشہور چاکلیٹ پر رکھنے کا فیصلہ کیا.
جان لیگر لنگ نے کہا ’ہمیں محسوس ہوا کہ کتنے لوگوں نے دنیا میں کی لائم پائی کھایا ہوگا، جہاں ہماری کوڈنگ ہوتی ہے وہاں فرج میں کھانے کی چیزوں میں كٹ کیٹ چاکلیٹ بھی ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کہا ’ایک رات کوئی اچانک بولا کہ اس نئے ورژن کا نام كٹ کیٹ کیوں نہ رکھ دیں، اس وقت تک تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ كٹ کیٹ کا نام دراصل کس کمپنی کے پاس ہے پھر ہم نے سوچا چلو نیسلے سے بات کی جائے۔‘
نیسلے کی مارکیٹنگ چیف پیٹرائیس نے بی بی سی کو بتایا ’ہمیں اس حوالے سے فیصلہ کرنے میں صرف ایک گھنٹہ لگا‘۔
انھوں نے کہا ’جب آپ اپنے برانڈ کے بارے میں بات کرنے کا کوئی نیا ذریعہ تلاش کرتے ہیں تو اس میں معمول سے زیادہ خطرات ہوتے ہیں اور یہ ویسا ہی ہے کہ آپ سوئمنگ پول کے قریب یہ سوچتے سوچتے 10 چکر لگاتے کہ پانی گرم ہوگا یا ٹھنڈا لیکن سچ جانے کے لیے آپ کو پانی میں اترنا پڑتا ہے‘۔
اس مہم کے تحت نیسلے اینڈرائڈ کی شکل لیے پانچ کروڑ كٹ کیٹ بار کو بھارت، روس، امریکہ، برطانیہ سمیت 19 ممالک میں متعارف کروائے گا۔

Battery can be used for monitoring ’بیٹری کے استعمال کے جائزے سے فون کی نگرانی ممکن‘

’بیٹری کے استعمال کے جائزے سے فون کی نگرانی ممکن‘

ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اینڈروئڈ فون کی نگرانی اس کے جی پی ایس یا وائی فائی ڈیٹا کی جگہ بغیر صرف اس کے بیٹری کے استعمال کے جائزے سے کی جا سکتی ہے۔
اس نظام پر چلنے والے سمارٹ فون اپنے نیٹ ورک یا ’سیلیولر بیس‘ سے جتنی دوری پر ہوتا ہے یا اسے فون کے سگنل وصول کرنے میں جتنی دشواری ہوتی ہے وہ اتنی ہی زیادہ بیٹری استعمال کرتا ہے۔
سمارٹ فون کی نگرانی سے متعلق تحقیق کے دوران محققین نے ایک ایسی ایپ بنائی جس سے فون کے بیٹری کے استعمال کے بارے میں ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا تھا۔
امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے سائنسدانوں نے یہ ریسرچ کی اور اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا ہے اس ایپ کو نہ تو جی پی ایس اور نہ ہی وائی فائی یا انٹرنیٹ نیٹ ورک تک رسائی حاصل تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس ایپ کو صرف نیٹ ورک کنکشن اور پاور ڈیٹا تک رسائی تھی۔‘
سائنسدانوں کا مزید کہنا تھا ’ کسی بھی ایپ کے لیے اس طرح کی اجازت حاصل کرنا عام بات ہے اور اس سے کسی بھی نیٹ ورک یا صارف کو یہ شک ہونا تقریباً ناممکن ہے ان کے فون کو ٹریک کیا جا رہا ہے۔‘
محققین کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں ایک سمارٹ فون کے گوگل پلے سٹور میں تقریباً 189 ایپس ہوتے ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں ایک سمارٹ فون کے گوگل پلے سٹور میں تقریباً 189 ایپس ہوتے ہیں۔

فون پر موسیقی سننا، نقشے کھولنا، وائس کال کرنا یہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہونا بھی بیٹری کے اخراجات میں اضافہ کرتا ہے لیکن اس کو اس لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ یہ فون کو سیکھنے اور سمجھنے کے زمرے میں آتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فون پر جاری یہ ساری سرگرمیاں ہماری تحقیق کو اس لیے متاثر نہیں کرتی ہیں کیونکہ ان سرگرمیوں کا فون کی لوکیشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
برطانیہ کی سرے یونیورسٹی میں سائبر یا انٹرنیٹ کی سکیورٹی کے امور کے ماہر پروفیسر ایلن وڈورڈ کا کہنا ہے ’آج کے دور میں موبائل ایپس یا ڈیوائسز اتنی عام ہوگئی ہیں اور ایسے میں یہ بات تشویشناک ہے کہ فون کی نگرانی کرنے کے کتنے راستے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’حالیہ تحقیق سے یہ بات واضح ہے کہ فون کی بیٹری یا فون میں استعمال ہونے والی توانائی ہماری نجی زندگی میں دخل اندازی کی طاقت رکھتی ہے۔‘
انھوں نے کہا ’ہم ایک ایسے مرحلے کی جانب جا رہے ہیں جہاں فون کرنے کا سب سے محفوظ طریقہ کار یہ ہے کہ ہم اپنے فون کی بیٹری نکال پھینکیں لیکن سارے فون اس بات کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔‘

فون اب کرسیوں، میزوں سے چارج کریں Now Chair & Desk can charge the cell phone

فون اب کرسیوں، میزوں سے چارج کریں


آئیکیا نے معیاری وائرلیس چارجنگ ’کیو آئی‘ کا استعمال کیا ہے جو کہ سیمسنگ کے نئے فون ’ایس 6‘ کے ساتھ بھی چلتا ہے

فرنیچر بنانے والی سوئٹزر لینڈ کی مشہور کمپنی ’آئیکیا‘ نے فرنیچر کے نئے ڈیزائن متعارف کرائے ہیں جن میں موبائل فون وغیرہ چارج کرنے کی سہولت موجود ہے۔
فرنیچر کی اس ’ہوم سمارٹ رینج‘ میں ابتدائی طور پر لیمپ، بیڈسائڈ ٹیبل اور کافی ٹیبل جبکہ کسی بھی سطح پر رکھ کر استعمال کے لیے انفرادی چارجنگ پیڈ بھی شامل ہیں۔
آئیکیا نے اس مقصد کے لیے معیاری وائرلیس چارجنگ ’کیو آئی‘ کا استعمال کیا ہے جو کہ سیمسنگ کے نئے فون ’ایس 6‘ کے ساتھ بھی چلتا ہے۔
آئیکیا آئی فون اور سیمسنگ کے ان فون ماڈلز کے لیے بھی چارجنگ کوّرز فروخت کرے گی جو ’کیو آئی‘ سے ہم آہنگ نہیں۔
فی الحال 80 سے زائد ایسے فون ہیں جو ’کیو آئی‘ سے ہم آہنگ ہیں۔
موبائل فونز کے چارجر بنانے والے گروپ ’وائرلیس پاور کنسوشیم‘ کے مطابق مارکٹ میں ’کیو آئی‘ سے ہم آہنگ 15 گاڑیاں بھی موجود ہیں۔

آئیکیا کا کہنا ہے کہ ’گھر اور آفس کے فرنیچر میں وائرلیس چارجنگ کی شمولیت سے ہم نے انفرادی چارجرز کی ضرورت کو محدود کر دیا ہے‘

آئیکیا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی وائرلیس چارجنگ مصنوعات اپنی مدت پوری ہونے پر آسانی سے تلف کی جا سکتی ہیں۔
آئیکیا کا کہنا ہے کہ ’گھر اور آفس کے فرنیچر میں وائرلیس چارجنگ کی شمولیت سے ہم نے انفرادی چارجرز کی ضرورت کو محدود کر دیا ہے‘۔
تاہم ماحولیات پر کام کرنے والے گروپ ’فرینڈز آف دی ارتھ‘ نے اس طرح کی مصنوعات کی ریسائکلنگ یا باز گردانی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔
آئیکیا کی یہ مصنوعات برطانیہ اور امریکہ میں اپریل 2015 سے فروخت کے لیے پیش کی جائیں گی۔

Tuesday, 24 February 2015

موبائل ایپس سے نامعلوم کالز کی پریشانی سے نجات Mobile apps for unknown calls

آپ ایسے کال کا جواب دے دے کر تھک چکے ہیں جو نامعلوم نمبر سے آتی ہیں؟
آپ ان نامعلوم نمبر سے آنے والی کالیں اس ڈر سے اٹھاتے ہیں کہ کہیں آپ کسی اہم کال کو نظرانداز نہ کر دیں؟
فکر نہ کریں، یہ چھ ایپس آپ کو اس پریشانی سے بچا سکتی ہیں۔
نامعلوم نمبر سے دوبارہ فون آتا ہے، آپ کا فون بجتا ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ یہ فضول کال ہے؟ کیا ہوگا اگر یہ کال واقعی اہم ہو یا ارجنٹ کال ہو؟ کیا آپ کو جستجو نہیں ہوگی کہ آپ فون اٹھاکر یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ فون کس کا ہے؟
اس طرح کے بیشتر فون ان بازاری کمپنیوں سے آتے ہیں جو آپ کو اپنا سامان فروخت کرنے کی کوشش کرتی ہیں؟ بیشتر اوقات آپ کو ان کا سامان خریدنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔
یہ کالز آپ کے ملک سے باہر مقیم کمپنیوں سے بھی آ سکتی ہیں۔ یا کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ یہ فون شاید کسی ایسے شخص کا ہے جس کا نمبر آپ نے اپنے فون میں محفوظ نہیں کیا ہے، لیکن جب آّپ فون کا جواب دیتے ہیں تو آپ کو مارکیٹنگ کمپنی کی جانب سے ایک ریکارڈ شدہ پیغام سنائی دیتا ہے۔
اگر آپ ہمیشہ کے لیے اس طرح کی کالز سے نجات پانا چاہتے ہیں تو آپ اپنے فون میں ایک ایسی ایپ ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں جو ان نامعلوم نمبروں کی شناخت کرے اور انہیں صدا کے لیے بلاک کر دے۔ ہم نے ایسی ہی چھ ایپس کی شناخت کی ہے جو آپ کو اس الجھن سے نجات دلا سکتی ہے۔

پہلی ایپ ہے ’ٹریپ کال‘


آپ ان نامعلوم نمبر سے آنے والی کالیں اس ڈر سے اٹھاتے ہیں کہ کہیں آپ کسی اہم کال کو نظرانداز نہ کر دیں؟

یہ ایپ ایپل اور اینڈروئیڈ دونوں فونز میں موجود ہے۔ یہ ایپ امریکہ کے شہر نیو جرسی کی ایک کمپنی ’ٹیل ٹیک‘ نے بنائی ہے۔ حالانکہ یہ ایپ ہے تو مفت لیکن نامعلوم کالز کی شناخت سے متعلق سروس کے لیے آپ کو تقریباً ماہانہ پانچ ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔
اس ایپ کی مدد سے اگر آپ کے پاس کسی نامعلوم نمبر سے فون آتا ہے تو آپ کال ختم کرنے والے بٹن کو دو بار دبا کر کال ختم کر سکتے ہیں۔ یہ ایپ فوراً آپ کو اس نمبر سے متعلق پیغام بھیجتی ہے اور یہ بھی بتا دیتی ہے کہ نمبر کسی شخص کا ہے یا کمپنی کا۔
اس کے ساتھ ہی اس ایپ کی مدد سے آپ اس طرح کے نامعلوم نمبروں کو بلاک بھی کر سکتے ہیں۔ ٹیل ٹیک کمپنی کے صدر میئر کوہین کا کہنا ہے ’یہ ایپ جاسوسوں اور ٹیکنالوجی میں بے حد دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ڈیزائن نہیں کی گئی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہر انسان اس طرح کی نامعلوم کالز کا جواب دینے سے نفرت کرتا ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ معلوم ہو کہ ہمیں کون کال کر رہا ہے اور فون کا جواب دینے یا نہ دینے کا اختیار اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔‘

’ٹرو کالر‘


چھ ایپس آپ کو اس پریشانی سے بچا سکتی ہیں

یہ ایپ سویڈن کی ایک کمپنی نے بنائی ہے اور اس کو بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں اس ایپ کو استمعال کرنے والوں کو تعداد 85 ملین یا ساڑھے آٹھ کروڑ کے قریب ہے۔
یہ ایپ آئی اوایس، اینڈروئیڈ، بلیک بیری اور ونڈوز فون پر مفت مہیا ہے۔ یہ ایپ پہلے سے ’نامعلوم‘ نمبروں کا جمع کیا ڈیٹا بیس یعنی معلومات کے ذخیرے کی مدد سے نامعلوم نمبروں کی شناخت کرتا ہے اور ان نمبروں سے دوبارہ فون نہ آئے اس لیے انہیں بلاک بھی کر دیتا ہے۔

’کانٹیکٹو‘



یہ ایپ برطانوی کمپنی ’تھنکنگ فونز‘ اور ’کلنک‘ نامی کمپنی کے بانی سپینئرڈ اناکی برنگور نے تشکیل دی تھی۔ یہ ایپ نامعلوم نمبروں کی شناخت کرتی ہے اور اس کو بنانے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ایپ چھ سو ملین یا 60 کروڑ نامعلوم نمبروں کی شناخت کر سکتی ہے۔ ان نمبروں کی شناخت کرنے کے لیے یہ ایپ انٹرنیٹ ڈیٹا بیس کے علاوہ، فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈن، اور واٹس ایپ جیسی ایپس سے معلومات حاصل کرتا ہے۔

’ٹریک کالر لوکیشن‘



یہ ایپ ’سمارٹ لوجک‘ نامی کمپنی نے بنائی ہے اور یہ فون میں مفت میں ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔ اس ایپ کو استمعال کرنے کے لیے آپ کو انٹرنیٹ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

’ہووز کال‘



یہ ایپ چند سیکنڈز میں نامعلوم نمبروں کے وسیع ڈیٹا بیس کو تلاش کرتا ہے۔ جس تائیوان کی کمپنی نے یہ مفت ایپ بنائی ہے اس کا دعویٰ ہے ہر دن یہ ایپ تقریباً دو کروڑ نامعلوم نمبروں کی شناخت کرتا ہے اور اس میں سے تقریباً پانچ لاکھ نمبر فضول ہوتے ہیں۔
ایک بار جب نامعلوم نمبروں کی شناخت ہوجاتی ہے تو آپ ان نمبروں سے کالز اور پیغامات دونوں بلاک کر سکتے ہیں۔

’ہوو از کالنگ‘


یہ چھ ایپس ایپل اور اینڈروئیڈ دونوں فونز میں موجود ہیں

یہ ایپ’ہووز کال‘ ایپ سے ملتی جھلتی ہی ہے۔ لیکن اس کی خاص بات ہے کہ اس بات کا پتہ لگا لیتی ہے کہ وائٹس ایپ کے ذریعے نامعلوم نمبر سے کون پیغامات بھیج رہا ہے۔ اس کے لیے یہ سوشل میڈیا کے ذریعے فون پر بھیجے جانے والے پیغامات کا بھی پتہ لگا لیتی ہے۔ اس ایپ کے مدد سے آپ سے نامعلوم نمبروں کی ’بلاک‘ فہرست بناسکتے ہیں۔
تو اب دیر کس بات کی؟ ان ایپس کی مدد سے اپنا قیمتی وقت بچائیں اور صرف انہیں سی بات کریں جن کے فون کا آپ کو انتظار ہے۔

سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی ’ڈیجیٹل وراثت‘ Social media accounts for the 'digital heritage '

سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی ’ڈیجیٹل وراثت‘  


اب آپ کے دنیا سے جانے بعد آپ کا اکاؤنٹ آپ کے پیارے استعمال کر سکتے ہیں
تدفین کرنے والی ایک کمپنی یعنی فیونرل کمپنی نے کہا ہے کہ لوگوں کو یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنے آن لائن اکاؤنٹس تک رشتے داروں کی رسائی چاہتے ہیں یا نہیں۔
تدفین میں مدد دینے والے ادارے ’ کوآپریٹو فیونرل کیئر‘ کے لیے کی جانے والی ایک تحقیق میں ورثا کی پریشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو انھیں اپنے پیاروں کے انٹرنیٹ اکاؤنٹس کے حوالے سے پیش آتی ہیں۔
اس کمپنی نے تجویز دی کہ لوگ خفیہ نمبر سمیت اپنے اکاؤنٹ کی تفصیلات ایک بند لفافے میں رکھ سکتے ہیں۔
اسی ماہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک کی جانب سے اپنے صارفین کے لیے وراثتی ’سیٹنگز‘ کو متعارف کروائے جانے کے بعد یہ تحقیق سامنے آئی ہے۔
فیس بک نے صارفین کو موت کے بعد اپنے اکاؤنٹس مستقل بند کرنے یا اس کا کنٹرول کسی رشتے دار یا دوست کو منتقل کرنے کا یہ آپشن گوگل اور دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کی پیروی میں پیش کیا ہے۔
فیس بک نے صارفین کو یہ آپشن دیا گیا ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کا اکاؤنٹ مستقل طور پر ختم کر دیا جائے۔
تدفین میں مدد کرنے والی کمپنی نے ایک مشترکہ سروے میں پتہ لگایا ہے کہ تقریباً تمام صارفین میں ہر چار میں سے تین ایسے ہیں جھنوں نے اپنے اکاؤنٹ کی تفصیلات آگے دینے کے لیے انتظام کیا ہے۔
سروے میں 2000 سے زائد نوجوانوں نے حصہ لیا جن میں تقریباً 80 فیصد ایسے تھے جو آن لائن اکاؤنٹس کو سماجی رابطوں، شاپنگ اور دیگر ضروریات کے لیے استعال کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے عزیزوں کی وفات پر اس قسم کے مسائل کا سامنا کیا تھا۔
لیکن صرف 16 فیصد نےاس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو اپنے سماجی رابطوں کے اکاؤنٹس تک رسائی دینا چاہیں گے۔تقریباً اتنی ہی تعداد چاہتی ہے کہ ان کے اقارب ان کے آن لائن اکاؤنٹس سے جڑے رہیں۔
سروے کے مطابق دوست یا رشتے دار کے لیے کسی کی جانب سے قبل ازموت لکھی جانے والی یہ معلومات ایک بند لفافے میں ہوں گی اور اس کی حیثیت وصیت کی مانند نہیں ہوگی کیونکہ ایسی صورت میں وہ منظر عام پر آسکتی ہیں۔
سیم کیرشا جو کہ اس کوآپریٹیو کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں ان کا کہنا ہے کہ زندگی کے ختم ہونے کے متعلق گفتگو کبھی بھی آسان نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں آن لائن کا اضافہ ہورہا ہے۔
ہم اپنے اکاؤنٹس کے بارے میں اپنے عزیزوں کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طریقے کے استعمال سے کوئی شخص اپنے اکاؤنٹ تک رسائی، اسے چلانے یا اسے بند کرنے کے لیے دوستوں کی مدد لے سکتا ہے۔

thousand years ago the foreign stars through the solar system ستر ہزار سال پہلے پردیسی ستارے کا نظامِ شمسی سے گزر

 سترہزار سال پہلے پردیسی ستارے کا نظامِ شمسی سے گزر


سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ستارہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ہمراہ ایک اور ستارہ بھی تھا

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 70 ہزار سال قبل ہمارے نظام شمسی سے باہر ایک ستارہ ہمارے نظام شمسی میں سے گزرا تھا۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ اس سے قبل کوئی بھی باہر کا ستارہ ہمارے نظام شمسی کے اتنے قریب سے نہیں گزرا۔
تحقیق دانوں کی بین الاقوامی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ ستارہ ہمارے سب سے قریبی ستارے پروکسیما سینٹوری سے بھی زیادہ قریب آ گیا تھا۔
شولز نامی ستارہ ہمارے شمسی نظام کی بیرونی حد کے قریب سے گزرا جس کو اورٹ کلاؤڈ کہا جاتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ستارہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ہمراہ ایک اور ستارہ بھی تھا۔
یہ تحقیق ایسٹرو فزیکل جرنل میں شائع ہوئی ہے۔
سائنسدانوں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ ہمارے سب سے قریب موجود ستارہ پروکسیما سینٹوری ہم سے 4.2 نوری سال کے فاصلے پر ہے جبکہ یہ ستارہ 0.8 نوری سال 
کے فاصلے سے گزرا تھا۔


اس ستارے کا راستہ معلوم کرنے کے لیے سائنسدانوں کو دو معلومات درکار تھیں۔ ایک تو ستارے اور سورج کے فاصلے میں تبدیلی اور دوسری اس کی حرکت۔
شولز ستارہ اس وقت ہماری نظام شمسی سے 20 نوری سالوں کے فاصلے پر ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اورٹ کلاؤڈ سے گزرنے والا ستارہ نظام میں موجود دمدار ستاروں کے مدار میں تبدیلی لا سکتا ہے اور ان کو نظامِ شمسی کے اندرونی حصے کی جانب بھیج سکتا ہے۔ تاہم روچسٹر یونیورسٹی کے ماہر فلکیات ایرک کا کہنا ہے کہ شولز نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
ایرک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’اورٹ کلاؤڈ میں کھربوں دمدار ستارے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس ستارے کے باعث ان میں کچھ تبدیلی آئی ہو۔ لیکن ابھی تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس ستارے کے باعث دمدار ستاروں کی بارش ہو۔‘

Sunday, 22 February 2015

Penguins are familiar with only Salty and sour flavors

پینگوئنز صرف نمکین اور کھٹے ذائقوں سے ہی آشنا




حیاتیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر پرندوں کے برعکس پینگوئنز صرف نمکین اور کھٹے ذائقوں سے ہی آشنا ہیں۔
امریکہ اور چین سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کی یہ تحقیق کرنٹ بائیولوجی نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
اس تحقیق کے مطابق پینگوئنز میں ارتقائی عمل کے دوران پانچ بنیادی ذائقوں میں سے تین کا احساس باقی نہیں رہا۔
خیال رہے کہ زیادہ تر پرندے میٹھے ذائقے کی نشاندہی نہیں کر سکتے لیکن پینگوئنز کڑوی چیزوں اور گوشت کے ذائقے سے بھی ناآشنا ہیں۔
یہ دریافت اس وقت ہوئی جب امریکہ اور چین سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے پینگوئنز کے جنوم میں سے ذائقوں کے جینز کو غائب پایا۔
سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پینگوئنز کو مچھلی کھاتے ہوئے اس کا ذائقہ نمکین لگ سکتا ہے لیکن چونکہ وہ پوری مچھلی نگل لیتی ہیں اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں کوئی ذائقہ محسوس نہیں ہوتا ہو۔