Tuesday, 24 February 2015

موبائل ایپس سے نامعلوم کالز کی پریشانی سے نجات Mobile apps for unknown calls

آپ ایسے کال کا جواب دے دے کر تھک چکے ہیں جو نامعلوم نمبر سے آتی ہیں؟
آپ ان نامعلوم نمبر سے آنے والی کالیں اس ڈر سے اٹھاتے ہیں کہ کہیں آپ کسی اہم کال کو نظرانداز نہ کر دیں؟
فکر نہ کریں، یہ چھ ایپس آپ کو اس پریشانی سے بچا سکتی ہیں۔
نامعلوم نمبر سے دوبارہ فون آتا ہے، آپ کا فون بجتا ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ یہ فضول کال ہے؟ کیا ہوگا اگر یہ کال واقعی اہم ہو یا ارجنٹ کال ہو؟ کیا آپ کو جستجو نہیں ہوگی کہ آپ فون اٹھاکر یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ فون کس کا ہے؟
اس طرح کے بیشتر فون ان بازاری کمپنیوں سے آتے ہیں جو آپ کو اپنا سامان فروخت کرنے کی کوشش کرتی ہیں؟ بیشتر اوقات آپ کو ان کا سامان خریدنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔
یہ کالز آپ کے ملک سے باہر مقیم کمپنیوں سے بھی آ سکتی ہیں۔ یا کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ یہ فون شاید کسی ایسے شخص کا ہے جس کا نمبر آپ نے اپنے فون میں محفوظ نہیں کیا ہے، لیکن جب آّپ فون کا جواب دیتے ہیں تو آپ کو مارکیٹنگ کمپنی کی جانب سے ایک ریکارڈ شدہ پیغام سنائی دیتا ہے۔
اگر آپ ہمیشہ کے لیے اس طرح کی کالز سے نجات پانا چاہتے ہیں تو آپ اپنے فون میں ایک ایسی ایپ ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں جو ان نامعلوم نمبروں کی شناخت کرے اور انہیں صدا کے لیے بلاک کر دے۔ ہم نے ایسی ہی چھ ایپس کی شناخت کی ہے جو آپ کو اس الجھن سے نجات دلا سکتی ہے۔

پہلی ایپ ہے ’ٹریپ کال‘


آپ ان نامعلوم نمبر سے آنے والی کالیں اس ڈر سے اٹھاتے ہیں کہ کہیں آپ کسی اہم کال کو نظرانداز نہ کر دیں؟

یہ ایپ ایپل اور اینڈروئیڈ دونوں فونز میں موجود ہے۔ یہ ایپ امریکہ کے شہر نیو جرسی کی ایک کمپنی ’ٹیل ٹیک‘ نے بنائی ہے۔ حالانکہ یہ ایپ ہے تو مفت لیکن نامعلوم کالز کی شناخت سے متعلق سروس کے لیے آپ کو تقریباً ماہانہ پانچ ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔
اس ایپ کی مدد سے اگر آپ کے پاس کسی نامعلوم نمبر سے فون آتا ہے تو آپ کال ختم کرنے والے بٹن کو دو بار دبا کر کال ختم کر سکتے ہیں۔ یہ ایپ فوراً آپ کو اس نمبر سے متعلق پیغام بھیجتی ہے اور یہ بھی بتا دیتی ہے کہ نمبر کسی شخص کا ہے یا کمپنی کا۔
اس کے ساتھ ہی اس ایپ کی مدد سے آپ اس طرح کے نامعلوم نمبروں کو بلاک بھی کر سکتے ہیں۔ ٹیل ٹیک کمپنی کے صدر میئر کوہین کا کہنا ہے ’یہ ایپ جاسوسوں اور ٹیکنالوجی میں بے حد دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ڈیزائن نہیں کی گئی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہر انسان اس طرح کی نامعلوم کالز کا جواب دینے سے نفرت کرتا ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ معلوم ہو کہ ہمیں کون کال کر رہا ہے اور فون کا جواب دینے یا نہ دینے کا اختیار اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔‘

’ٹرو کالر‘


چھ ایپس آپ کو اس پریشانی سے بچا سکتی ہیں

یہ ایپ سویڈن کی ایک کمپنی نے بنائی ہے اور اس کو بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں اس ایپ کو استمعال کرنے والوں کو تعداد 85 ملین یا ساڑھے آٹھ کروڑ کے قریب ہے۔
یہ ایپ آئی اوایس، اینڈروئیڈ، بلیک بیری اور ونڈوز فون پر مفت مہیا ہے۔ یہ ایپ پہلے سے ’نامعلوم‘ نمبروں کا جمع کیا ڈیٹا بیس یعنی معلومات کے ذخیرے کی مدد سے نامعلوم نمبروں کی شناخت کرتا ہے اور ان نمبروں سے دوبارہ فون نہ آئے اس لیے انہیں بلاک بھی کر دیتا ہے۔

’کانٹیکٹو‘



یہ ایپ برطانوی کمپنی ’تھنکنگ فونز‘ اور ’کلنک‘ نامی کمپنی کے بانی سپینئرڈ اناکی برنگور نے تشکیل دی تھی۔ یہ ایپ نامعلوم نمبروں کی شناخت کرتی ہے اور اس کو بنانے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ایپ چھ سو ملین یا 60 کروڑ نامعلوم نمبروں کی شناخت کر سکتی ہے۔ ان نمبروں کی شناخت کرنے کے لیے یہ ایپ انٹرنیٹ ڈیٹا بیس کے علاوہ، فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈن، اور واٹس ایپ جیسی ایپس سے معلومات حاصل کرتا ہے۔

’ٹریک کالر لوکیشن‘



یہ ایپ ’سمارٹ لوجک‘ نامی کمپنی نے بنائی ہے اور یہ فون میں مفت میں ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔ اس ایپ کو استمعال کرنے کے لیے آپ کو انٹرنیٹ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

’ہووز کال‘



یہ ایپ چند سیکنڈز میں نامعلوم نمبروں کے وسیع ڈیٹا بیس کو تلاش کرتا ہے۔ جس تائیوان کی کمپنی نے یہ مفت ایپ بنائی ہے اس کا دعویٰ ہے ہر دن یہ ایپ تقریباً دو کروڑ نامعلوم نمبروں کی شناخت کرتا ہے اور اس میں سے تقریباً پانچ لاکھ نمبر فضول ہوتے ہیں۔
ایک بار جب نامعلوم نمبروں کی شناخت ہوجاتی ہے تو آپ ان نمبروں سے کالز اور پیغامات دونوں بلاک کر سکتے ہیں۔

’ہوو از کالنگ‘


یہ چھ ایپس ایپل اور اینڈروئیڈ دونوں فونز میں موجود ہیں

یہ ایپ’ہووز کال‘ ایپ سے ملتی جھلتی ہی ہے۔ لیکن اس کی خاص بات ہے کہ اس بات کا پتہ لگا لیتی ہے کہ وائٹس ایپ کے ذریعے نامعلوم نمبر سے کون پیغامات بھیج رہا ہے۔ اس کے لیے یہ سوشل میڈیا کے ذریعے فون پر بھیجے جانے والے پیغامات کا بھی پتہ لگا لیتی ہے۔ اس ایپ کے مدد سے آپ سے نامعلوم نمبروں کی ’بلاک‘ فہرست بناسکتے ہیں۔
تو اب دیر کس بات کی؟ ان ایپس کی مدد سے اپنا قیمتی وقت بچائیں اور صرف انہیں سی بات کریں جن کے فون کا آپ کو انتظار ہے۔

سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی ’ڈیجیٹل وراثت‘ Social media accounts for the 'digital heritage '

سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی ’ڈیجیٹل وراثت‘  


اب آپ کے دنیا سے جانے بعد آپ کا اکاؤنٹ آپ کے پیارے استعمال کر سکتے ہیں
تدفین کرنے والی ایک کمپنی یعنی فیونرل کمپنی نے کہا ہے کہ لوگوں کو یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنے آن لائن اکاؤنٹس تک رشتے داروں کی رسائی چاہتے ہیں یا نہیں۔
تدفین میں مدد دینے والے ادارے ’ کوآپریٹو فیونرل کیئر‘ کے لیے کی جانے والی ایک تحقیق میں ورثا کی پریشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو انھیں اپنے پیاروں کے انٹرنیٹ اکاؤنٹس کے حوالے سے پیش آتی ہیں۔
اس کمپنی نے تجویز دی کہ لوگ خفیہ نمبر سمیت اپنے اکاؤنٹ کی تفصیلات ایک بند لفافے میں رکھ سکتے ہیں۔
اسی ماہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک کی جانب سے اپنے صارفین کے لیے وراثتی ’سیٹنگز‘ کو متعارف کروائے جانے کے بعد یہ تحقیق سامنے آئی ہے۔
فیس بک نے صارفین کو موت کے بعد اپنے اکاؤنٹس مستقل بند کرنے یا اس کا کنٹرول کسی رشتے دار یا دوست کو منتقل کرنے کا یہ آپشن گوگل اور دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کی پیروی میں پیش کیا ہے۔
فیس بک نے صارفین کو یہ آپشن دیا گیا ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کا اکاؤنٹ مستقل طور پر ختم کر دیا جائے۔
تدفین میں مدد کرنے والی کمپنی نے ایک مشترکہ سروے میں پتہ لگایا ہے کہ تقریباً تمام صارفین میں ہر چار میں سے تین ایسے ہیں جھنوں نے اپنے اکاؤنٹ کی تفصیلات آگے دینے کے لیے انتظام کیا ہے۔
سروے میں 2000 سے زائد نوجوانوں نے حصہ لیا جن میں تقریباً 80 فیصد ایسے تھے جو آن لائن اکاؤنٹس کو سماجی رابطوں، شاپنگ اور دیگر ضروریات کے لیے استعال کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے عزیزوں کی وفات پر اس قسم کے مسائل کا سامنا کیا تھا۔
لیکن صرف 16 فیصد نےاس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو اپنے سماجی رابطوں کے اکاؤنٹس تک رسائی دینا چاہیں گے۔تقریباً اتنی ہی تعداد چاہتی ہے کہ ان کے اقارب ان کے آن لائن اکاؤنٹس سے جڑے رہیں۔
سروے کے مطابق دوست یا رشتے دار کے لیے کسی کی جانب سے قبل ازموت لکھی جانے والی یہ معلومات ایک بند لفافے میں ہوں گی اور اس کی حیثیت وصیت کی مانند نہیں ہوگی کیونکہ ایسی صورت میں وہ منظر عام پر آسکتی ہیں۔
سیم کیرشا جو کہ اس کوآپریٹیو کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں ان کا کہنا ہے کہ زندگی کے ختم ہونے کے متعلق گفتگو کبھی بھی آسان نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں آن لائن کا اضافہ ہورہا ہے۔
ہم اپنے اکاؤنٹس کے بارے میں اپنے عزیزوں کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طریقے کے استعمال سے کوئی شخص اپنے اکاؤنٹ تک رسائی، اسے چلانے یا اسے بند کرنے کے لیے دوستوں کی مدد لے سکتا ہے۔

thousand years ago the foreign stars through the solar system ستر ہزار سال پہلے پردیسی ستارے کا نظامِ شمسی سے گزر

 سترہزار سال پہلے پردیسی ستارے کا نظامِ شمسی سے گزر


سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ستارہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ہمراہ ایک اور ستارہ بھی تھا

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 70 ہزار سال قبل ہمارے نظام شمسی سے باہر ایک ستارہ ہمارے نظام شمسی میں سے گزرا تھا۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ اس سے قبل کوئی بھی باہر کا ستارہ ہمارے نظام شمسی کے اتنے قریب سے نہیں گزرا۔
تحقیق دانوں کی بین الاقوامی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ ستارہ ہمارے سب سے قریبی ستارے پروکسیما سینٹوری سے بھی زیادہ قریب آ گیا تھا۔
شولز نامی ستارہ ہمارے شمسی نظام کی بیرونی حد کے قریب سے گزرا جس کو اورٹ کلاؤڈ کہا جاتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ستارہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ہمراہ ایک اور ستارہ بھی تھا۔
یہ تحقیق ایسٹرو فزیکل جرنل میں شائع ہوئی ہے۔
سائنسدانوں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ ہمارے سب سے قریب موجود ستارہ پروکسیما سینٹوری ہم سے 4.2 نوری سال کے فاصلے پر ہے جبکہ یہ ستارہ 0.8 نوری سال 
کے فاصلے سے گزرا تھا۔


اس ستارے کا راستہ معلوم کرنے کے لیے سائنسدانوں کو دو معلومات درکار تھیں۔ ایک تو ستارے اور سورج کے فاصلے میں تبدیلی اور دوسری اس کی حرکت۔
شولز ستارہ اس وقت ہماری نظام شمسی سے 20 نوری سالوں کے فاصلے پر ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اورٹ کلاؤڈ سے گزرنے والا ستارہ نظام میں موجود دمدار ستاروں کے مدار میں تبدیلی لا سکتا ہے اور ان کو نظامِ شمسی کے اندرونی حصے کی جانب بھیج سکتا ہے۔ تاہم روچسٹر یونیورسٹی کے ماہر فلکیات ایرک کا کہنا ہے کہ شولز نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
ایرک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’اورٹ کلاؤڈ میں کھربوں دمدار ستارے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس ستارے کے باعث ان میں کچھ تبدیلی آئی ہو۔ لیکن ابھی تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس ستارے کے باعث دمدار ستاروں کی بارش ہو۔‘

Sunday, 22 February 2015

Penguins are familiar with only Salty and sour flavors

پینگوئنز صرف نمکین اور کھٹے ذائقوں سے ہی آشنا




حیاتیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر پرندوں کے برعکس پینگوئنز صرف نمکین اور کھٹے ذائقوں سے ہی آشنا ہیں۔
امریکہ اور چین سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کی یہ تحقیق کرنٹ بائیولوجی نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
اس تحقیق کے مطابق پینگوئنز میں ارتقائی عمل کے دوران پانچ بنیادی ذائقوں میں سے تین کا احساس باقی نہیں رہا۔
خیال رہے کہ زیادہ تر پرندے میٹھے ذائقے کی نشاندہی نہیں کر سکتے لیکن پینگوئنز کڑوی چیزوں اور گوشت کے ذائقے سے بھی ناآشنا ہیں۔
یہ دریافت اس وقت ہوئی جب امریکہ اور چین سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے پینگوئنز کے جنوم میں سے ذائقوں کے جینز کو غائب پایا۔
سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پینگوئنز کو مچھلی کھاتے ہوئے اس کا ذائقہ نمکین لگ سکتا ہے لیکن چونکہ وہ پوری مچھلی نگل لیتی ہیں اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں کوئی ذائقہ محسوس نہیں ہوتا ہو۔

Five tips to make your computer faster



اپنے کمپیوٹر کو تیز رفتار بنانے کی پانچ تراکیب


شیئر
’لیکن یہ میں نے ابھی تو خریدا ہے!‘ آپ شکوہ کرتے ہیں۔ دراصل ایسا چھ برس قبل ہوا تھا، جب آپ سیر کے لیے کہیں گئے اور کرنسی میں فرق کا فائدہ اٹھایا تھا۔ ’لیکن یہ کوئی پروگرام کھولنے میں اتنی دیر کیوں لگاتا ہے؟‘ آپ تقریباً اپنے بال نوچتے ہوئے خود سے سوال کرتے ہیں۔
اگر آپ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر نہیں ہیں، آپ اپنا کمپیوٹر اس طرح تبدیل نہیں کر سکتے جس طرح آپ اپنی قمیص تبدیل کرتے ہیں، تو بی بی سی نے کچھ تراکیب مرتب کیں ہیں جو آپ کو میک یا پی سی کی دیکھ بھال میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں، قطع نظر اس کے کہ آپ کمپیوٹرز کے بارے میں کتنا جانتے ہیں۔
1۔ ہارڈ ڈسک کی تنظیمِ نو یا ’Defrag‘ کرنا
شاید آپ کو اس مطلب بھی معلوم نہ ہو لیکن شاید یہ آپ کے لیے حیران کن امر ہوگا کہ یہ عمل آپ کے کمپیوٹر کی نگہداشت کے لیے کس قدر اہم ہے۔
'Defragmentation' آپ کےکمپیوٹر میں بکھرے ہوئے ڈیٹا کو یکجا کر کے کمپیوٹر کے کام کرنے کی صلاحیت کو تیز رفتار کرتا ہے۔
جس انداز میں کمپیوٹر میں فائلیں محفوظ کی جاتی ہیں، اس سے جدید ہارڈ ڈسکس بھی سست ہو جاتی ہیں۔ جیسے جیسے ہارڈ ڈسک پر فائلیں محفوظ یا خذف کی جاتی ہیں، یہ تمام ڈیٹا ایک ساتھ محفوظ ہونے کے بجائے ہارڈ ڈسک کے مختلف حصوں پر محفوظ ہوتا رہتا ہے۔ جس کے باعث فائلوں تک رسائی سست روی کا شکار ہو جاتی ہے۔
ڈسک پر بکھرے ہوئے معلومات کے ان بلاک کو ترتیب لگانے سے نہ صرف میموری میں دستیاب جگہ میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس سے معلومات تک رسائی میں بھی آسانی پیدا ہوتی ہے۔
اور ایسا کرنا بالکل مشکل نہیں ہے۔ ایسے کچھ پروگرامز ہیں جن سے مدد لی جا سکتی ہے ـ Smart Defrag 3 (ونڈوز8.1) یا iDefrag (ایپلOS X کے لیے)
2۔ غیرضروری فائلیں حذف کریں
آج کل 200GB سے کم ہارڈ ڈسک بہت آسانی سے بھر جاتی ہے۔ اور جوں جوں یہ بھرتی جاتی ہے اس کے کام کرنے کے صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔
آپ کے کمپیوٹر میں شاید ایسی بہت سی پرانی فائلیں موجود ہو سکتی ہیں جو آپ اب کے استعمال میں نہیں، اور ان فائلوں نے آپ کے کمپیوٹر میں جگہ گھیر رکھی ہوئی ہے۔
مارکیٹ میں سے پی سی اور میک کمپیوٹرز کے لیے متعدد پروگرامز دستیاب ہیں۔ پی سی کے لیے Space Sniffer یا WinDirStat جیسے پروگرامز آپ کو یہ بتا سکتے ہیں کہ کون سی فائلوں نے ہارڈ ڈسک کی سب سے زیادہ جگہ گھیر رکھی ہے۔
اگر آپ میک پرOS X استعمال کر رہے ہیں تو یہ کام اور بھی آسان ہے۔ اس کے لیےFinder سرچ کی سہولت استعمال کی جا سکتی ہے۔ یہ آپ کو آپ کے میک میں موجود سب کچھ دکھا سکتا ہے، بشمول ایپلیکیشنز، پروگرامز، ہارڈ ڈسکس، فائلیں، فولڈرز اور ڈی وی ڈی ڈرائوز۔ آپ اس سے اپنی فائلوں اور فولڈرز کی تنظیم نو کر سکتے ہیں، اپنے میک کا تمام مواد دیکھ سکتے ہیں اور جو چاہے حذف کر سکتے ہیں۔
3۔ پروگرامز کو خودکار طریقے سے اجتناب کریں
یہ اپنے کمپیوٹر کی رفتار تیز کرنے کا تیزترین طریقہ ہے، خاص طور پر کمپیوٹر کتنی تیز رفتاری سے سٹارٹ ہوتا ہے۔
یہ دیکھنا ممکن ہے کہ آپ کے کمپیوٹر پر کون کون سے پروگرام اس وقت چل رہے ہیں اور اگر آپ چاہیں تو انہیں بند کر سکتے ہیں۔
OS X میں Activity Monitor اور ونڈوز میں Task Manager کے ذریعے یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کے پاس میک ہے توSystem Preferences میں جائیں، Users and Groups کا انتخاب کریں اور اس پروگرام کو بند کر دیجیے جو آپ بند کرنا چاہتے ہیں۔
اگر آپ پی سی استعمال کرتے ہیں تو بلامعاوضہ دستیاب ٹولAutoruns استعمال کر سکتے ہیں جو خودکار طریقے سے چلنے والے پروگراموں کو کنٹرول کرتا ہے۔
4۔ وائرس اور نقصان دے پروگرامز کا خاتمہ
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اینٹی وائرس سافٹ ویئر کے بغیر گزارا کر سکتے ہیں، اور یہ توجیح پیش کرتے ہیں کہ اس سے بہت زیادہ میموری خرچ ہوتی ہے اور کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، بالخصوص پرانے پی سی کمپیوٹرز پر۔
لیکن جو افراد کمپیوٹر ماہر نہیں ہیں ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ بعد میں پچھتانے کے بجائے اینٹی وائرس سافٹ ویئر کا استعمال کریں۔
آپ اپنے کمپیوٹر کی خصوصیات کے مطابق اینٹی وائرس سافٹ ویئر کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ایسے بے شمار اینٹی وائرس سافٹ ویئرز دستیاب ہیں جو بہت کم میموری اور پروسیسنگ پاور خرچ کرتے ہیں، جن میں Microsoft Security Essentials ،Panda Cloud اور Avira شامل ہیں۔
اگرچہ یہ مفروضہ بہت بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے کہ میک کمپیوٹرز کو وائرس متاثر نہیں کرتا لیکن اگر آپ کا اپیل کمپیوٹر معمول سے زیادہ سست ہو جائے تو آپ کو اس طرف بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ آپ اس صورت میں بلامعاوضہ دستیاب ٹول Avast یا Sophos اینٹی وائرس استعمال کر سکتے ہیں۔
5۔ ویب اپیلیکیشنز کا استعمال کریں
office انسٹال کر کے استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے جب آپ کوGoogle Docs ، Adobe’s Buzzword یا Zoho یا پھر Peepel جیسی اپیلیکیشنز کے ذریعے وہ سب کچھ مل سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں۔
آج کل کی ویب ایپلیکیشنز جو برائوزر کے اندر کام کرتی ہیں، ان سے کسی بھی قسم کا کام لیا جا سکتا ہے۔
اس کے دو فوائد ہیں: یہ چلنے میں بھاری نہیں ہوتیں اور یہ ہارڈ ڈسک پر اثرانداز نہیں ہوتیں۔
اگر ان تمام پانچ مرحلوں کے بعد بھی آپ کا کمپیوٹر سٹارٹ ہونے میں تیر رفتاری کا مظاہرہ نہیں کرتا تو شاید آپ کو کسی تکنیکی ماہر سے رابطہ کرنے یا نیا کمپوٹر خریدنے کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔

malaria is more drug resistant

ملیریا کی دوا کے خلاف مدافعت پہلے سے زیادہ



ملیریا مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے

سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ لاکھوں انسانی جانوں کو ملیریا سے محفوظ رکھنے والی دوائی کے خلاف مدافعت پہلے سے زیادہ دکھائی دی ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا میں سامنے آنے کے بعد سے ملیریا سے بچاؤ کی ادویات کے خلاف مدافعت اور اسے رد کرنے کی صلاحیت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔
تجربات جنہیں لینسٹ انفیکشس ڈیزیز میں شائع کیا اب ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مدافعت بھارت میں داخل ہونے کو ہے جسے ماہرین نے ’خطرناک اور تباہ کن خطرہ‘ قرار دیا ہے۔
میلیریا کے نتیجے میں ہلاکتیں 2000 کے بعد سے نصف ہو گئی ہیں اور اب اس انفیکشن نے نتیجے میں 584000 افراد سالانہ ہلاک ہوتے ہیں۔
مگر خدشہ ہے کہ ملیریا کی دوا آرٹیمیسین کی خلاف مدافعت اس ساری محنت پر پانی پھیر دے گی جسے کمبوڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ، ویتنام اور میانمار میں دیکھی گئی ہے جہاں 940 افراد کے خون کے نمونے جنہیں 55 مختلف جگہوں سے اکٹھا کیا گیا تھا، میں ظاہر ہوا ہے کہ یہ مدافعت پورے ملک میں بڑے پیمانے پر موجود ہے۔
ایک جگہ جسے سگائنگ کہا جاتا ہے میں اس مدافعت کرنے والے طفیلیے بھارتی سرحد سے صرف 25 کلومیٹر دور ہے۔
تحقیق میں حصہ لینے والے ایک محقق پروفیسر چارلس ووڈرو جن کا تعلق تھائی لینڈ کے ایک ریسرچ یونٹ سے ہے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے دیکھا کہ آرٹیمیسین کے خلاف مدافعت واضع طور پر بھارت کی سرحد کے قریب کے علاقوں میں موجود ہے اور وہ ایک حقیقی خطرہ اور مستقبل میں اس سے قریبی علاقوں میں پھیلنے کا خطرہ موجود ہے۔
آرٹیمیسین دواؤں کے ایک مجموعے کے حصے کے طور پر دی جاتی ہے اور ڈاکٹر ووڈرو کا کہنا ہے کہ مجموعے میں موجود دوسری دوائیں ابتدا میں تو اس کی کمی کو پورا کرتی ہیں مگر ’ایک آنے والے‘ وقت میں یہ مکمل ناکامی کا سبب بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر یہ بھارت میں پھیلتا ہے تو ملیریا وہاں دیہی آبادی کو نقصان پہنچاتا رہے گا مگر علاج کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا۔ مگر مختصر مدت کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ موجود ہے اور اس کے علاج کے لیے دوائیں موجود نہیں ہیں۔‘
یہ سب پہلے ہو چکا ہے کلوروکونین جس نے کروڑوں انسانی جانیں ملیریا سے بچائیں مگر اس کے خلاف 1975 میں مدافعت سامنے آئی، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب واقع علاقوں میں جو پھیل کر دنیا کے مختلف علاقوں سے ہوتی 17 سال بعد افریقہ پہنچی۔
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ آرٹیمیسین کے خلاف مدافعت افریقہ میں ابھی ہے یا نہیں مگر خدشات ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دھرانے کو ہے جس کے تباہ کُن نتائج سامنے آئیں گے۔
ڈاکٹر ووڈرو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کلوروکونین کے خلاف مدافعت کے عالمی پھیلاؤ سے ہمارے پاس ثبوت ہے کہ یہ بیمار افراد کی تعداد اور ہلاکتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے کا پیش خیمہ ہے۔‘


خون کے سرخ خلیے میں ملیریا کا جرثومہ

جنوبی ایشیا کلوروکونین اور آرٹیمیسین کے خلاف مدافعت میں شامل رہا ہے اور اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس خطے میں افریقہ کے بعد ملیریا کے خلاف مدافعت کی قدرتی سطح بہت کم ہے اور مدافعت کی کمی کے بغیر اس علاقے میں بیمار افراد کے علاج کے لیے صرف دوا کو کام کرنا پڑتا ہے۔
تاہم افریقہ میں ملیریا کے کیس بہت زیادہ ہوتے ہیں جن میں بار بار ملیریا کے کیس بھی عام ہیں جس کی وجہ سے لوگ مدافعت پیدا کر لیتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ قدرتی نظامِ مدافعت اور دوا مل کر ملیریا کے خلاف جنگ میں ذمہ داری اٹھاتی ہیں اور اسی وہ سے جنوبی ایشیا کا خطہ اس مرض کے طفیلیے کے لیے مدافعت بڑھانے کے لیے زرخیز ہے۔
ورلڈ وائڈ اینٹی ملیریل ریزسٹنس نیٹ ورک کے پروفیسر فیلیپ گیورن نے کہا کہ’یہ تحقیق اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آرٹیمشینن کے خلاف مدافعت کس قدر خطرناک رفتار سے بڑھ رہی ہے اور ہمیں اس کے خلاف موثر عالمی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سرحدی علاقوں میں اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔‘
انفیکشن اور امیونوبائیولوجی کے سربراہ پروفیسر مائک ٹرنر نے کہا کہ ’نئی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے جس میں طفیلیے آرٹیمیسین کے خلاف مدافعت بڑھا رہے ہیں جو ملیریا کے علاج کی سب سے بڑی بنیاد ہے اور یہ اب میانمار میں بہت عام ہے۔ ہمیں اب بھارت تک اس مدافعت کے بڑھنے کے لازمی خطرے کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔‘