ملیریا کی دوا کے خلاف مدافعت پہلے سے زیادہ
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ لاکھوں انسانی جانوں کو ملیریا سے محفوظ رکھنے والی دوائی کے خلاف مدافعت پہلے سے زیادہ دکھائی دی ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا میں سامنے آنے کے بعد سے ملیریا سے بچاؤ کی ادویات کے خلاف مدافعت اور اسے رد کرنے کی صلاحیت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔
تجربات جنہیں لینسٹ انفیکشس ڈیزیز میں شائع کیا اب ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مدافعت بھارت میں داخل ہونے کو ہے جسے ماہرین نے ’خطرناک اور تباہ کن خطرہ‘ قرار دیا ہے۔
میلیریا کے نتیجے میں ہلاکتیں 2000 کے بعد سے نصف ہو گئی ہیں اور اب اس انفیکشن نے نتیجے میں 584000 افراد سالانہ ہلاک ہوتے ہیں۔
مگر خدشہ ہے کہ ملیریا کی دوا آرٹیمیسین کی خلاف مدافعت اس ساری محنت پر پانی پھیر دے گی جسے کمبوڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ، ویتنام اور میانمار میں دیکھی گئی ہے جہاں 940 افراد کے خون کے نمونے جنہیں 55 مختلف جگہوں سے اکٹھا کیا گیا تھا، میں ظاہر ہوا ہے کہ یہ مدافعت پورے ملک میں بڑے پیمانے پر موجود ہے۔
ایک جگہ جسے سگائنگ کہا جاتا ہے میں اس مدافعت کرنے والے طفیلیے بھارتی سرحد سے صرف 25 کلومیٹر دور ہے۔
تحقیق میں حصہ لینے والے ایک محقق پروفیسر چارلس ووڈرو جن کا تعلق تھائی لینڈ کے ایک ریسرچ یونٹ سے ہے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے دیکھا کہ آرٹیمیسین کے خلاف مدافعت واضع طور پر بھارت کی سرحد کے قریب کے علاقوں میں موجود ہے اور وہ ایک حقیقی خطرہ اور مستقبل میں اس سے قریبی علاقوں میں پھیلنے کا خطرہ موجود ہے۔
آرٹیمیسین دواؤں کے ایک مجموعے کے حصے کے طور پر دی جاتی ہے اور ڈاکٹر ووڈرو کا کہنا ہے کہ مجموعے میں موجود دوسری دوائیں ابتدا میں تو اس کی کمی کو پورا کرتی ہیں مگر ’ایک آنے والے‘ وقت میں یہ مکمل ناکامی کا سبب بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر یہ بھارت میں پھیلتا ہے تو ملیریا وہاں دیہی آبادی کو نقصان پہنچاتا رہے گا مگر علاج کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا۔ مگر مختصر مدت کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ موجود ہے اور اس کے علاج کے لیے دوائیں موجود نہیں ہیں۔‘
یہ سب پہلے ہو چکا ہے کلوروکونین جس نے کروڑوں انسانی جانیں ملیریا سے بچائیں مگر اس کے خلاف 1975 میں مدافعت سامنے آئی، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب واقع علاقوں میں جو پھیل کر دنیا کے مختلف علاقوں سے ہوتی 17 سال بعد افریقہ پہنچی۔
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ آرٹیمیسین کے خلاف مدافعت افریقہ میں ابھی ہے یا نہیں مگر خدشات ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دھرانے کو ہے جس کے تباہ کُن نتائج سامنے آئیں گے۔
ڈاکٹر ووڈرو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کلوروکونین کے خلاف مدافعت کے عالمی پھیلاؤ سے ہمارے پاس ثبوت ہے کہ یہ بیمار افراد کی تعداد اور ہلاکتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے کا پیش خیمہ ہے۔‘
جنوبی ایشیا کلوروکونین اور آرٹیمیسین کے خلاف مدافعت میں شامل رہا ہے اور اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس خطے میں افریقہ کے بعد ملیریا کے خلاف مدافعت کی قدرتی سطح بہت کم ہے اور مدافعت کی کمی کے بغیر اس علاقے میں بیمار افراد کے علاج کے لیے صرف دوا کو کام کرنا پڑتا ہے۔
تاہم افریقہ میں ملیریا کے کیس بہت زیادہ ہوتے ہیں جن میں بار بار ملیریا کے کیس بھی عام ہیں جس کی وجہ سے لوگ مدافعت پیدا کر لیتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ قدرتی نظامِ مدافعت اور دوا مل کر ملیریا کے خلاف جنگ میں ذمہ داری اٹھاتی ہیں اور اسی وہ سے جنوبی ایشیا کا خطہ اس مرض کے طفیلیے کے لیے مدافعت بڑھانے کے لیے زرخیز ہے۔
ورلڈ وائڈ اینٹی ملیریل ریزسٹنس نیٹ ورک کے پروفیسر فیلیپ گیورن نے کہا کہ’یہ تحقیق اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آرٹیمشینن کے خلاف مدافعت کس قدر خطرناک رفتار سے بڑھ رہی ہے اور ہمیں اس کے خلاف موثر عالمی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سرحدی علاقوں میں اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔‘
انفیکشن اور امیونوبائیولوجی کے سربراہ پروفیسر مائک ٹرنر نے کہا کہ ’نئی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے جس میں طفیلیے آرٹیمیسین کے خلاف مدافعت بڑھا رہے ہیں جو ملیریا کے علاج کی سب سے بڑی بنیاد ہے اور یہ اب میانمار میں بہت عام ہے۔ ہمیں اب بھارت تک اس مدافعت کے بڑھنے کے لازمی خطرے کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔‘
No comments:
Post a Comment